پردیسی
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے
سبھی کو چھوڑ کے آتے ہیں پراے دیس
بہنوں کے لاڈلے ماں کے دلارے
ابھی تو ہیں بس اللہ کے سہارے
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے
روتے ہیں ہر دم یاد کر کے
وہ گاؤں کی گلیاں ، وہ نہر کے کنارے
پھر سوچتے ہوے رات کٹ جاتی ہے
وطن ہمارا اس کنارے، ہم ادھر اس کنارے
کب جائیں گے وطن میں پیارے
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے
اندر سے دل بھی ٹوٹے ہوے ہیں
کیونکہ ہر دل عزیز چھوٹے ہوے ہیں
دل روئیں خون کے آنسو
اوپر سے مسکراتے ہیں سارے
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے
کبھی کبھی تم بھی یاد آ جاتی ہو
وہ مسکرانا گلی میں ، وہ اشارے تمہارے
تمہیں یاد ہو نہ ہو جب ہم جدا ہوے تھے
وہ قسمیں میری ، وہ وعدے تمہارے
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے
دن بھر محنت کرتے رہتے ہیں
خون پسینہ ایک کرتے رہتےہیں
اور اپنی خواہش چھوڑ دیتے ہیں ،یہ سوچ کر
کہ پیٹ بھر کر کھائیں گھر والے سارے
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے
وہ بہن بھائی ،اور باپ اور ماں
چھوڑ آے ہیں دور وہاں
وہ بہن کے لاڈ بھائی کی ڈانٹ
باپ کی نصیحت اور ماں پناہ
ادھر ہم مشکلوں میں پھسے ہوے ہیں
ادھر دیس کی مٹی ہم کو پکارے
انشاءاللہ اک دن ہم بھی وطن میں جائیں گے
پھر ہر طرف ہوں گےنظارے ہی نظارے
قسمت کے مارے ، پردیسی بیچارے