ناروے میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والے اسلام دشمن انتہا پسند آندرے بیرنگ بریوک نے پندرہ سو صفحات پر مشتمل اپنے منشور میں یوروپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بہت جلد یورپ میں کئی منی پاکستان بن جائیں گے۔اس نے اپنی اس تحریر کو یورپین آزادی کا منشور کہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ
یورپ میں لبنانی طرز کے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔خون آشام حملوں کی تیاری کرتے ہوئے آندرے لکھتا رہا ہے کہ اس نے یہ منصوبہ کب اور کیسے تیار کیا۔اسلحہ کہاں سے لیا اور کہاں ذخیرہ کیا۔اس دوران وہ کن لوگوں سے ملتا رہا۔اور اپنے ہلاکت خیز منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا کچھ منصوبہ بندی کرتا رہا۔آندرے کی کہانی فرانسیسی فلاسفر ژاں پال سارتر کی ایک کہانی سے ملتی جلتی ہے جس میں اس کا مرکزی کردار بازار میں فائرنگ کر کے چلتے پھرتے انسانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔وہ ایک پستول خریدتا ہے۔جس میں پانچ گولیاں ہوتی ہیں۔ وہ اپنی جمع پونجی کے ساتھ ایک فلیٹ میں منتقل ہو جاتا ہے۔ جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے تو وہ بازار میں جا کر اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے نکلتا ہے۔چوک میں اندھا دھند گولیاں چلاتا ہے۔جس میں تین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایک گولی وہ اپنے لیے بچا لیتا ہے۔ہجوم اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔قاتل اپنے آپ کو ایک ریستوران کے واش روم میں بند کر لیتا ہے۔ اور کوشش کرتا ہے کہ آخری گولی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے لیکن وہ کوشش کے باوجود اپنی جان نہیں لے سکتا اور ہجوم اسے پکڑ لیتا ہے۔ آندرے بھی پکڑا گیا ہے اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے لیکن اپنے منشور میں اس نے یورپ کا جو خیالی خاکہ کھینچا ہے ۔وہ یقینی طور پر بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ میں پاکستانی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ وہاں کے قوانین کا مکمل احترام کرتے ہیں اور کبھی بھی کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں پائے گئے جن سے وہاں کے کسی قوانین کی نفی ہوتی ہو۔اس کے باوجود آندرے جیسے انتہاپسندان خدشات کا اظہار کیوں کررہے ہیں کہ یورپ میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی موجودگی نئے تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔ کہیں یہ یورپ سے پاکستانیوں کے انخلا کا نکتہ ء آغاز تو نہیں ؟